اسلام آباد(نیوز ڈیسک)جاوید چوہدری اپنے کالم میں تحریر کرتے ہیں کہ گراف (Groff) سوئٹزر لینڈ کی کمپنی ہے‘ ہیڈکوارٹر لوزرن میں ہے اور یہ بادشاہوں‘ شہزادوں اور ملکائوں کے لیے ہیروں اور جواہرات کی سپیشل پراڈکٹس بناتی ہے‘ یہ پراڈکٹس مارکیٹ میں نہیں ملتیں‘ صرف محلات میں جاتی ہیں اور وہیں استعمال ہوتی ہیں‘ گراف نے 2018ء میں سعودی عرب کے ولی عہد
کے لیے دو سپیشل گھڑیاں بنائی تھیں‘ عمران خان بطور وزیراعظم جب 18 ستمبر 2018ء کوسعودی عرب کے پہلے دورے پر گئے توولی عہد نے وزیراعظم کو گراف کی گھڑی‘ دو ہیرے جڑے کف لنکس‘ سونے کا ایک پین اور ایک انگوٹھی بطور تحفہ دی‘ پوری دنیا میں حکمران حکمرانوں کو تحائف دیتے ہیں‘ یہ تحفے عموماً عجائب گھروں میں رکھ دیے جاتے ہیں یا پھر ایوان صدر یا وزیراعظم ہائوس میں سجائے جاتے ہیں ‘ وائیٹ ہائوس اس کی سب سے بڑی مثال ہے وہاں دو دو سو سال پرانے تحفے نمائش کے لیے رکھے ہیں‘ تاہم پاکستان میں روایت ذرا سی مختلف ہے یہاں صدر یا وزیراعظم کو ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرا دیے جاتے ہیں‘اب توشہ خانہ کیا ہے؟ توشہ خانہ مغلوں کے دور میں ہندوستان میں بنا تھا‘ اس میں بادشاہ کو ملنے والے تحائف رکھے جاتے تھے‘ بادشاہ اپنے مہمانوں اور درباریوں کو خلعت عطا کرتا تھا‘ یہ خلعت بھی توشہ خانہ میں رکھی جاتی تھی اور وہیں سے منگوا کر مہمانوں کو عنایت کی جاتی تھی‘ توشہ خانہ مغلوں سے ایسٹ انڈیا کمپنی میں آیا‘ پھر وائسرائے کے پاس آیا اور قیام پاکستان کے بعد حکومت پاکستان کے پاس آ گیا‘ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی دور میں سرکاری تحائف کو سرکاری ملکیت سمجھا جاتا تھا اور کوئی اہلکار انہیں ذاتی طور پر استعمال نہیں کر سکتا تھا‘ پاکستان میں بھی شروع میں یہی روایت تھی‘ بیوروکریٹس سے لے کر صدر تک تمام تحائف توشہ خانہ میں جمع ہو جاتے تھے لیکن پھر غالباً ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس رُول میں تبدیلی آ گئی اور توشہ خانہ کے اہلکار تحائف کی قیمت کا تخمینہ لگاتے اور پھر اس قیمت کا 20فیصد خزانے میں جمع کرا کر تحفہ حاصل کرنے والا شخص تحفہ ذاتی استعمال میں لانے لگا لہٰذا
ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر عمران خان تک اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے رہے اور یہ سہولت اس حد تک جائز ہوتی تھی۔ ہم اب واپس عمران خان کے تحائف کی طرف آتے ہیں‘ عمران خان کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 2018ء میں چار انتہائی قیمتی تحائف دیے اور روایت کے مطابق چیف آف پروٹوکول نے تحائف توشہ خانے میں جمع کرا دیے‘ توشہ خانہ نے گراف کی گھڑی کا تخمینہ ساڑھے آٹھ کروڑ‘ کف لنکس کی مالیت 56 لاکھ 70 ہزار روپے‘پین کی قیمت 15 لاکھ روپے اور انگوٹھی کی مالیت 87لاکھ 50 ہزارروپے ڈکلیئر کی‘ چاروں تحائف کی ٹوٹل مالیت دس کروڑ 92لاکھ روپے بنی اور اس کا 20فیصد دو کروڑ دو لاکھ 78 ہزار روپے بنا‘ عمران خان نے یہ رقم خزانے میں جمع کرائی اور چاروں تحائف توشہ خانہ سے لے لیے‘ یہ معاملہ یہاں تک بھی جائز اور قانونی تھا لیکن اس کے بعد سٹوری میں دو ٹوئسٹ آئے اوریہ سکینڈل بن گیا‘وزیراعظم نے دو کروڑ 2 لاکھ 78 ہزار روپے کی رقم اپنی ٹیکس ریٹرن میں ڈکلیئر نہیں کی تھی‘یہ رقم ان کے اکائونٹس میں سرے سے موجود بھی نہیں تھی لہٰذا سوال پیدا ہوا یہ رقم پھر کہاں سے آئی؟ دوسرا چند ماہ بعد گراف کے دوبئی آفس نے اپنے ہیڈکوارٹر کو مطلع کیا ولی عہد کے لیے بنائی گئی گھڑیوں میں سے ایک فروخت کے لیے ہمارے پاس آئی ہے‘ ہم کیا کریں؟ ہیڈکوارٹر نے ولی عہد کےسیکرٹری سے رابطہ کیا اور سیکرٹری نے ولی عہد سے پوچھا‘ وہ اس حرکت پر حیران رہ گئے تاہم انہوں نے گھڑی خریدنے کا عندیہ دے دیا اور یوں وہ گھڑی گراف نے 14 کروڑ روپے میںخرید کرولی عہد کو بھجوا دی اور یہ
حرکت غیراخلاقی بھی تھی‘ غیرقانونی بھی اور غیر سفارتی بھی ‘یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے‘ گھڑی دوبئی میں کس نے فروخت کی تھی؟ پارٹی کے چند لوگ ذلفی بخاری کواس کا ذمہ د ار قرار دیتے ہیں‘ یہ الزام لگاتے ہیں‘ خاتون اول نے گھڑی ذلفی بخاری کو دی اور ذلفی بخاری اسے دوبئی میں فروخت کر آئے‘ میں نے اتوار کو تصدیق کے لیے ذلفی بخاری سے رابطہ کیالیکن ان کا دعویٰ تھا ’’میں نے زندگی میں یہ گھڑی دیکھی اور نہ ہی میں اس معاملے میں انوالو ہوا‘‘ تاہم ان کا کہنا تھا ’’عمران خان نے اگر توشہ خانہ کی رقم ادا کر دی تھی تو وہ گھڑی کے مالک تھے اور وہ اسے جہاں چاہتے اور جب چاہتے فروخت کرتے کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں‘‘۔عمران خان نے …